آنکھوں میں رہا دل میں اُتر کر نہیں دیکھا
کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا
بے وقت اگر جاؤں گا سب چونک پڑیں گے
اک عمر ہوئی دن میں کبھی گھر نہیں دیکھا
کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا
بے وقت اگر جاؤں گا سب چونک پڑیں گے
اک عمر ہوئی دن میں کبھی گھر نہیں دیکھا
جس دن سے چلا ہوں مری منزل پہ نظر ہے
آنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا
یہ پھُول مجھے کوئی وراثت میں ملے ہیں
تم نے مر ا کانٹوں بھرا بستر نہیں دیکھا
یاروں کی مُحبت کا یقیں کر لیا میں نے
پھُولوں میں چھُپایا ہوا خنجر نہیں دیکھا
محبوب کا گھر ہو کہ بزرگوں کی زمینیں
جو چھوڑدیا پھر اُسے مڑکر نہیں دیکھا
خط ایسا لکھّا ہے کہ نگینے سے جڑے ہیں
وہ ہاتھ کہ جس نے کوئی زیور نہیں دیکھا
پتھر مجھے کہتا ہے مرا چاہنے والا
میں موم ہوں اُس نے مجھے چھُوکر نہیں دیکھا..
آنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا
یہ پھُول مجھے کوئی وراثت میں ملے ہیں
تم نے مر ا کانٹوں بھرا بستر نہیں دیکھا
یاروں کی مُحبت کا یقیں کر لیا میں نے
پھُولوں میں چھُپایا ہوا خنجر نہیں دیکھا
محبوب کا گھر ہو کہ بزرگوں کی زمینیں
جو چھوڑدیا پھر اُسے مڑکر نہیں دیکھا
خط ایسا لکھّا ہے کہ نگینے سے جڑے ہیں
وہ ہاتھ کہ جس نے کوئی زیور نہیں دیکھا
پتھر مجھے کہتا ہے مرا چاہنے والا
میں موم ہوں اُس نے مجھے چھُوکر نہیں دیکھا..
Comments
Post a Comment
Thanks For Nice Comments.